نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کورونا وائرس کی وباءاور دیگر وجوہات کی بناءپر سال 2020ءکو بدترین سال قرار دیا جا رہا ہے لیکن اب تاریخ دانوں اور تحقیق کاروں 536ءکے متعلق ایسی خوفزدہ کردینے والی تفصیلات بتا دی ہیں کہ آپ 2020ءکی تباہ کاری بھول جائیں گے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق ہارورڈ یونیورسٹی میں قرون وسطیٰ کے تاریخ دان اور ماہر آثارقدیمہ مائیکل مک کارمک کا کہنا ہے کہ ”536ءکا سال تاریخ کے بدترین سالوں میں سے ایک ہے۔ اس سال یورپ میں ایک پراسرار دھند پھیل گئی تھی اور مشرق وسطیٰ اور ایشیاءکے بعض حصے 18ماہ تک مسلسل اندھیرے میں ڈوب گئے تھے ۔“
پروفیسر مک کارمک کا کہنا ہے کہ ”سال 536ءکے موسم گرما میں درجہ حرارت 1.2ڈگری سینٹی گریڈ سے 2.5ڈگری سینٹی گریڈ تک گر گیا تھا۔ گزشتہ 2300سال میں پہلی بار دنیا کا درجہ حرارت اتنا کم ہوا تھا۔ اس موسم گرما میں چین میں برفباری ہوئی اور فصلیں تباہ ہو جانے سے خوفناک قحط آگیا اور لوگ فاقوں سے مرنے لگے۔آئرلینڈ کی تاریخ میں درج ہے کہ سال 536ءسے 539ءکے درمیان روٹی ملنا ناممکن ہو گیا تھا ۔“
ماہرین نے بتایا ہے کہ سال 536ءکے موسم بہار میں پڑنے والی برف میں آتش فشانی شیشے کے انتہائی چھوٹے ذرات پائے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آئس لینڈ یا شاید شمالی امریکہ میں آتش فشاں پھٹا تھا، جس کی راکھ نصف شمالی کرہ پر پھیل گئی تھی۔محققین کا خیال ہے کہ یہ آتش فشانی دھند ہواﺅں کے ساتھ یورپ اور بعد میں ایشیاءتک پھیل گئی اور دنیا کئی ماہ تک اندھیرے میں ڈوبی رہی۔ اس کے بعد 540اور 547میں دو مزید آتش فشاں پھٹے طاعون کی ایک وباءبھی پھیلی جس کے سبب یورپ معاشی جمود کا ایسا شکار ہوا کہ ایک صدی یعنی 640ءتک اس جمود سے نکل نہیں پایا تھا ۔
0 Comments